ایک عام سی پاکستانی لڑکی اہم اسلامی ملک کے شہزادے کی دلہن بن گئی یہ کون ہیں۔۔۔یہ سب کب اور کیسے ہو؟اہم انکشاف

اسلام آباد(نیوزڈیسک) یہ نصف صدی پہلے کا قصہ ہے جب کراچی میں شادی کی ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جس کی خوشی میں کراچی کے در و دیوار جگمگا اٹھے، یہ تقریب ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی اور نکاح نامے پر

دو ممالک کے سربراہان نے بطور گواہ دستخط کیے۔ نامور مضمون نگار عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ 15 جولائی 1968 کی بات ہے جب اُردن کے بادشاہ

شاہ حسین کے چچا شریف حسین بن ناصر پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ثروت کے لیے اُردن کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال کا رشتہ لے کر پاکستان تشریف لائے۔اس رشتے کی منظوری سے پاکستان بھر میں خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ثروت جنھیں اُن کے گھر والے پیار سے ’بٹلم‘ کہتے تھے 24 جولائی 1947 کو کلکتہ

میں پیدا ہوئی تھیں، وہ برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھیں، اور اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان پر یکساں عبور رکھتی تھیں۔شہزادہ حسن سے ان کی ملاقات چند برس پہلے برطانیہ میں ہوئی تھی جہاں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کے ہم جماعت تھے۔ شہزادہ حسن 20 مارچ 1947 کو عمان میں پیدا ہوئے تھے اورعربی، انگریزی، ہسپانوی اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔پھر 27

اگست 1968 کا دن آیا جب کراچی کے بین الاقوامی ایئر پورٹ پر اُردن سے آئی ہوئی بارات اُتری۔ اُن سے پہلے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان اس برات کے خیر مقدم کے لیے کراچی پہنچ چکے تھے۔ برات کا طیارہ اُردن کے شاہ حسین خود اڑا رہے تھے۔طیارہ زمین پر اترا تو ایئر پورٹ کی فضا شاہ حسین زندہ باد اور صدر ایوب زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ برات میں شاہ حسین اور شہزادہ

حسن کے علاوہ اُردن کے وزیراعظم بہجت طلہونی ، سیکریٹری جنرل زید انضمائی، شہزادی منیٰ الحسین، شہزادی عالیہ، شہزادی بسمیہ اور چند دیگر حکام شامل تھے۔ایوب خان نے برات کا استقبال کیا۔ ان کے ساتھ پاکستان میں اُردن کے سفیر عکاش الزین اور اردن میں پاکستان کے سفیر راحت سعید چھتاری بھی موجود تھے۔ دوسری سمت ثروت کی والدہ بیگم شائستہ اکرام اللہ، جو خود پاکستان کے لیے

سفارت کاری کے فرائض سرانجام دے چکی تھیں، اور صدر ایوب خان کی صاحبزادی نسیم اورنگ زیب موجود تھیں۔شہزادہ حسن بن طلال اپنی خوش دامن کے پاس پہنچے اور اُن کے سامنے سر جھکا دیا۔ بیگم اکرام اللہ نے دعائیں دیتے ہوئے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا۔برات کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جس کے بعد برات سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوگئی، کراچی کی آراستہ سڑکوں پر

پاکستانی عوام خیر مقدمی نعروں سے برات کا استقبال کر رہے تھے اور صدر ایوب، شاہ حسین اور شہزادہ حسن کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔کئی مقامات پر استقبالیہ بینڈ بھی فضا میں موسیقی بکھیر رہے تھے اور پھول نچھاور کیے جا رہے تھے۔ایوان صدر میں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی جانب سے ظہرانے کا انتظام تھا۔ شام کو شاہی خاندان کلفٹن میں بیگم شائستہ اکرام اللہ کے گھر ‘کاشانہ’ پہنچا ،

جہاں مہندی کی رسم ادا کی گئی، اس رسم میں ثروت جو اب شہزادی ثروت کہلانے لگی تھیں کی والدہ، بہنوں اور قریبی دوستوں نے شرکت کی۔سات سہاگنوں نے شہزادی ثروت کی ہتھیلی پر مہندی رکھ دی اور پھر ان کی دوستوں نے ایک حسین مشرقی رقص پیش کیا۔ اُردن کی شہزادیاں یہ منظر حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ اس رات شہر بھر میں چراغاں کیا گیا تھا مگر ایوان صدر سے کاشانہ تک کی سڑک کو توکچھ زیادہ ہی اہتمام کے ساتھ سجایا گیا تھا۔اگلے دن 28 اگست 1968 کو دلہن کے گھر نکاح کی تقریب تھی۔ اس تقریب میں بھی شہزادی ثروت کی بہنوں اور دوستوں نے بہت دھوم مچائی۔ شہزادہ حسن نے ان سب میں گھڑیوں اور دینار کے تحفے تقسیم کیے، پھر ایک سادہ سی تقریب میں رسم نکاح ادا کی گئی۔یہ نکاح عالم دین مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے پڑھایا۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.