
اگر بیوی ز نا سے حاملہ ہو جا ئے تو بچہ ضائع کر وا نا ٹھیک ہے؟؟
سقاطِ حمل کی مدت ایک سو بیس (120) دن ہے۔ حدیث پاک میں عملِ تخلیق کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: م میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ۔ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔
رزق، عمر، نیک بخت یا بدبختگر حاملہ عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے۔کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔ تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔رحم مادر میں استقرار حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے، حمل ضائع کرنا جائز ہے۔ جب بچہ بطن مادر میں چار ماہ کا ہو جائے تو، اب اسے ضائع کرناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے بچوں کی پیدائش سے بچہ یا زچہ کی صحت پر اور بچوں کی دیکھ بھال پر منفی اثرات پڑیں گے، تو اس صورت میں عورت کے لئے ضبط تولید کے مفید اصولوں کو اپنانا نہ صرف جائز بلکہ مناسب تر ہے۔ بچے کی پیدائش پر ماں کو جن تکالیف، کمزوریوں اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف عورتیں ہی کرسکتی ہیں۔ ہر ماں گویا مر کر دوبارہ زندہ ہوتی ہے۔ پھر پیدا ہونے والے بچے کو دو سال تک دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری اور بچے کا
حق ہے۔ لہٰذا ایسے مسائل سے بچنے کے لیے اسقاطِ حمل جائز ہے۔ اسقاط حمل ضائع کروانے اور اس سے پیدا ہونےو الے مسائل پر بہت زیادہ تفصیلات بیان کی ہیں لیکن انہوں نے غیر شرعی ٹھہرنے والے حمل کے بارے میں کچھ زیادہ بیان نہیں کیا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ٹھیک نکاح سے ٹھہرے جانے والے حمل کو ضائع کر نا اور نکاح سے ٹھہرے ہوئے حمل کو ضائع کرنے کے برابر ہی لکھا ہو اور ہو سکتا ہے انہوں نے اسے صحیح نکاح سے ہونے والے اور اس میں شریک ہی سمجھا ہو تو اگر دیکھا جا ئے ایک جائز تعلق سے ٹھہرنے والا حمل ضائع کروانا ح ر ام ہے تو اس سے کہیں زیادہ شدید حکم میں آئے گی ز ن ا سے ٹھہرا حمل ضائع کر نے سے فحاشی اور برے کام کرنے میں مدد دے گا اس طرح ز ن ا کا راستہ کھلے گا اور شریعت کے اندر ہر وہی کام ح ر ام ہے جو فحاشی اور گ ن ا ہ کا سبب بن سکتا ہے مثلاً مرد و عورت کا تنہائی میں ملنا۔ لہٰذا ایسے پیدا ہونے والے بے گ ن ا ہ بچے کو کسی دوسرے کے گ ن ا ہ پر ذ ب ح نہیں کیا جا ئے گا۔
Leave a Reply